تحریر نمبر 02

اور پڑہیں

علمی برتری و علمی حجابات اور اس کے نتائج علم کے لئے کاوشیں ناگزیر ہیں٬ دنیاوی علوم و فنون سے قوموں کی مادی ترقی وابستہ ہے تو دینی علوم سے دین کا پورا نظام متعلق ہے٬ لیکن ان دونوں علوم کے حصول کی جدوجہد کے دوران یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ کہیں علم سے علمی برتری اور علمی حجابات پیدا نہ ہوجائیں٬ کہیں یہ علوم تزکیہ نفس اور خودشناسی اور اللہ شناسی کی راہ میں حائل نہ ہوجائیں۔ علمی حجابات اور علمی برتری بتا کر نہیں آتیں٬ بلکہ خودشناسی نہ ہونے کے لازمی نتیجہ کے طور پر یہ حجابات پیدا ہوجاتے ہیں٬ جس سے علم کے فوائد و ثمرات ضایع ہوجاتے ہیں٬ہم اپنے ملک کے مؤثر طبقات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ملک میں غربت و افلاس کی حالت پیدا کرنے اور عام لوگوں کو نانِ شبینہ کا محتاج بنانے میں جو کردار جدید تعلیم یافتہ طبقات نے ادا کیا ہے٬ جس میں حکمران٬ اہل سیاست٬ بیورکریٹ، سرمائیدار٬ بڑے بڑے تاجر٬ بڑے بڑے ڈ اکٹر وغیرہ شامل ہیں٬ غیر تعلیم یافتہ افراد نے تو اس کا ہزارواں حصہ بھی ادا نہیں کیا٬ڈاکو لوٹ مار کرتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ لاکھوں روپے کی لوٹ مار ہوتی ہے٬ لیکن مذکورہ طبقات کی لوٹ مار کروڑوں٬ اربوں روپے کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دولت کا ایک جنون ہےجس میں مذکورہ طبقات مبتلا ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کے سارے فوائد وثمرات برباد ہوگئے اور علم ذاتی مفادات کے حصول اور نفسی حجابات کا ذریعہ بن گیا۔ ایسا اس لئے ہوا کہ علم سے خودشناسی اور اللہ شناسی کی روح نکال دی گئی٬ اس لئے علم خودغرضی٬ مفاد پرستی٬ نفس پرستی اور دولت پرستی کا ذریعہ بن گیا۔ کوئی قانون ایسا نہیں٬ جو خودشناسی اور اللہ شناسی کا بدل بن سکے٬ اس لئے ضروری ہے کہ علوم کے حصول کے وقت خودشناسی اور اللہ شناسی یعنی معرفت نفس اور معرفت رب کے کچھ اجزاء بھی منتقل کرنے کی کوشش ہو اور اس کا خصوصی اہتمام بھی ہو ﴿تحریر:حافظ محمد موسٰی بھٹو ﴾ آواز :جاوید یونس

 

Submit a Comment

Your email address will not be published.