ہمارا ہدف و پیغام

قرآن و سنت کے سایۂِ رحمت میں ترتیب وار فرد،خاندان،معاشرہ اور ملک و ملت کی اصلاح کی فکر بیدار کرنا ۔
اصلاح کی کوشش کے تمام مراحل میں ہر قسم کے مسلک،گروہ،جماعت کو اپنا سمجھ کر کام کرنا۔

دین اسلام کے تیسرے بڑے اور اہم تر شعبے احسان (تصوف) کو اس کے حق کے مطابق بنیادی اہمیت دینا ۔
۔اس شعبے کو اسلاف کے اصل طرز پر سمجھنا اور برتنا۔
اس شعبے سے متعلق افراط و تفریط کے رویے کی نشاندہی کرنا۔اور خود اس اہم ترین شعبے میں پیدا شدہ اعتقادی۔عملی۔منھجی خرابیوں کی نشاندہی کرنا۔ گروہ بندی اور فرقہ پرستی کی کشیدگی کو حتی الامکان کم کر کے باہمی ادب و احترام اور تعاون کی فضاٗ کو پروان چڑحانا۔ امت مسلمہ کی خدمت میں مصروف ہر نیک نیت شخص و جماعت کے کام کی خیر خواہی کرنا اس کی حوصلہ افزائی کرنا۔ کسی فرد جماعت کی دینی یا دنیاوی غلطی کی نشاندہی اعتدال و احترام سے کرنا

تعارف
حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب نے ۱۹۶۸ء سے صحافت کا آغاز کیا٬ اس وقت کی سندھ کی سب سے کثیر الاشاعت اخبار ’’عبرت‘‘ میں ان کے مضامین کا سلسلہ شروع ہوا٬ ۱۹۶۹ء میں سندھی روزنامہ ’’الوحید‘‘ اخبار میں ان کا باقاعدہ مضمون نگار کی حیثیت سے تقرر ہوا۱۹۷۱٬ء کے شروع میں وہ روزنامہ ’’جسارت ‘‘ کراچی میں وقائع نگار خصوصی کی حیثیت سے وابستہ ہوئے٬ ’’جسارت‘‘ سے ان کا یہ تعلق ۱۹۸۳ء تک قائم رہا۔ ۱۹۸۴ء میں ان کا تعلق روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں مضمون نگار کی حیثیت قائم رہا٬ جو چار سال تک جاری رہا۱۹۹۲٬ء سے انہوں نے سندھی زبان میں ماہنامہ ’’بیداری‘‘ کے نام سے رسالہ کا اجراء کیا٬ جو پچھلے ۲۷ سال سے جاری ہے٬ اپریل ۲۰۰۳ء میں انہوں نے اردو میں بھی ’’بیداری‘‘ رسالہ کا اجراء کیا٬ جو پچھلے ۱۶ سال سے جاری ہے۔
بھٹو صاحب نے سندھ کی نظریاتی کشمکش کی فضا میں جہاں قوم پرستی اور کمیونزم کی تحریک طاقتور تھی٬ ۱۹۸۰ء سے کتابوں کا سلسلہ شرو ع کیا٬ ۱۹۸۴ء میں انہوں نے باقاعدہ ادارہ قائم کرکے علمی اور نظریاتی کتابوں کی اشاعت کا کام شروع کیا٬ جو اعزازی طور پر سندھ کے تعلیمی اداروں٬ علمی شخصیتوں اور تحریکوں سے وابستہ افراد کو ہر ماہ ارسال کیا جاتا رہا٬ ان کتابوں میں قوم پرستی اور کمیونزم کی نظریاتی تحریکوں کے علمی تعاقب کے ساتھ ساتھ اسلام کو بہتر استدلال اور جدید اسلوب سے پیش کرنے کی کاوش کی٬ سندھی زبان میں انہوں نے دیڑھ سو کے لگ بھگ کتابیں شایع کیں۔
اردو زبان میں تصوف٬ مسلم نفسیات٬ جدید اسلامی فکر اور صوفی شعرا اور بزرگوں کے کلام کی تشریح اور ممتاز اسلامی مفکروں کے فکر کی توضیح وتشریح اور ان کے تعارف پر مشتمل موضوعات پر سو کے لگ بھگ کتابیں لکھی٬ جو ان کے ادارہ کی طرف سے شایع ہوئی۔
بھٹو صاحب نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ ۱۹۸۴ء تک انہوں نے عالم اسلام کے دیڑھ سو سالہ مفکروں اور فاضلوں کی کتابوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا٬ چونکہ وہ اسلام کے نصب العینی فکر کے بارے میں شدید اشکالات کا شکار تھے کہ اسلام کا نصب العین اللہ سے والہانہ محبت٬ تعلق با اللہ اور سیرت وکردار کی پاکیزگی ہے یا اسلامی نظام کے غلبہ کے لئے جدوجہد٬ اس طرح کے اشکالات سے نکلنے کے لئے انہیں برسوں تک مسلسل مطالعہ کرنا پڑا٬ اس مطالعہ نے ان پر سلف صالحین کے اسلامی فکر کے خطوط واضح کئےاور جدید اسلامی مفکروں کے فکر کی بعض کمزوریوں کو اجاگر کیا٬ اس طرح وہ جہاں اسلامی نصب العینی فکر کے بارے میں یکسو ہوئے٬ وہاں وہ سارے مفکروں کے ہاں موجود خیر کے ساتھ ساتھ ان کی فکر کی کمزوریوں سے بھی آشنا ہوئے اور جدید اسلامی فکر سے ان کی مرعوبیت ختم ہوئی۔
مزید پڑھیں
حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب تصوف کی عملی دنیا میں ممتاز بزرگ ڈ اکٹر غلام مصطفیٰ خان ؒ کی سرکردگی میں ۱۷ سال تک چلتے رہے٬ اس سے پہلے وہ چار سال تک ایک اور بزرگ سے وابستہ رہے٬ اس طرح وہ سلوک میں ۲۱ سال تک چلتے رہے٬ تصوف سے اس گہری وابستگی اور سلوک کے مجاہدوں سے وہ مسلم نفسیات کی گہرائیوں سے بڑی حد تک آشنا ہوئے اور شخصیت کی داخلی زندگی میں موجود نشیب وفرار اور مدوجزر سے واقف ہوئے٬ انہیں متعدد بزرگوں سے خلافت بھی ملی٬ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں جدید طبقات کے لئے تصوف کے روایتی طور طریقے قابل قبول نہیں ہوسکتے٬ نئے دور میں تصوف کو نئی صورت دینے کی ضرورت ہے٬ اب پیری مریدی کی بجائے اصلاح نفس کی طلب رکھنے والے افراد کو دوستی کی بنیاد پر تصوف میں چلانا چاہئے٬ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ روحانی استاد یا شیخ ان خطرات سے بچ جائے گا٬ جو تصوف کی روایتی صورت اختیار کرنے کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں٬ اب اس تعلق کو استاد اور شاگرد کا نام بھی دیا جا سکتا ہے٬ شاگرد کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے لئے جدید افراد کے سارے اشکالات کو دور کرنے کے لئے نیا لٹریچر تخلیق دینا پڑے گا٬ خوشی کی بات یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے ان تھک محنت سے یہ نیا لٹریچر خود ہی تخلیق دیا ہے٬ اس موضوع پر ان کی کئی درجن کتابیں شایع ہوئی ہیں٬ اللہ تعالیٰ نے اس محاذ پر بھی ان سے بڑا علمی کام لیا ہے۔
حافظ محمد موسیٰ بھٹو کی کچھ اہم کتابوں کے نام یہ ہیں (۱) انسانی شخصیت میں نصب بت٬ روحانی اور نفسی بیماریوں کا تجزیہ (۲) اسلامی فکر بیسویں صدی میں (۳) بیسویں صدی کے اسلامیت کے ممتاز شارحین (۴) اسلام پر اعتراضات کا علمی جائزہ (۵) ملت اسلامیہ اور عصر حاضر کے تقاضے (۶) ملت اسلامیہ اور اس کی تعمیر کے صحیح خطوط (۷) ہمارے سلگتے ہوئے اخلاقی اور روحانی مسائل اور ان کا حل (۸) تصوف ۔ سلف اور خلف کی نظر میں (۹) تعلیمات مجدد الف ثانی ؒ (۱۰) اصلاح نفس کا لائحہ عمل (۱۱) مادیت کی دلدل (۱۲) جدید انسان کا داخلی بحران اور اس سے نکلنے کی صورت (۱۳) تصوف اور اسلامی تحریکیں٬ عہد جدید میں (۱۴) دینی جماعتوں اور شخصیتوں کا علمی جائزہ (۱۵) سلیقہ انسانیت کا بحران اور بچاؤ ‏ کی تدابیر (۱۶) تعمیر انسانیت کا کام اور اس کے تقاضے (۱۷) اہم تفسیری نکات٬ اہل محبت واہل سلوک کے لئے قرآنی لائحہ عمل (۱۸) نفسی قوتیں جدیدیت کے پس منظر میں (۱۹) شاہ عبداللطیف بٹھائی کا کلام اور اس کی تشریح (۲۰) مادیت اور روحانیت کی کشمکش اور اس کے اثرات ونتائج (۲۱) وقت کا چیلنج اور اس سے عہدہ بر آہونے کی صورت (۲۲) بزرگان دین کی تعلیمات (۲۳) دل اور روح کی دنیا (۲۴) قرآن اور علم جدید (۲۵) قومی تعمیر وزوال میں نظام تعلیم کا کردار ۔

ہمارا منھج

سلف صالحین پر اعتماد…… بدعت وتجدد سے  پرہیز۔۔۔دین  اسلام کے تیسرے  بڑے اور اہم تر شعبے  احسان  (تصوف) کو اس کے حق کے مطابق بنیادی اہمیت دینا

مجلس ذکرو مراقبہ: بروز اتوار

11 am – 12:30 pm

ملاقات علاوہ جمعہ

9 am – 12 pm

: پتہ

Sindh National Academy (Trust)  400/B, Latifabad No.4, Hyderabad, Sindh, Pakistan