تحریر و آواز:حافظ محمد موسٰی بھٹو صاحب

تحریر نمبر 01

Learn More

*بیداری ملت کے سلسلہ میں اہل تصوف کا کردار بیداری ملت کے سلسلے میں تصوف واہل تصوف شروع سے اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں٬ ہماری تاریخ میں سیاست کا رخ تو بدلتا رہا ہے٬ وقت کے بادشاہ اکثر حکمرانی کے نشہ میں چو ر رہے ہیں٬ لیکن ہماری پوری تاریخ میں اہل تصوف چٹائی پر بیٹھکر لوگوں کی تربیت٬ تزکیہ اور اصلاح کا کام کرتے رہے ہیں٬ اس طرح وہ معاشرے کو اخلاقی اور روحانی طور پر سنبھالتے رہے ہیں٬ چنانچہ مسلم معاشرہ کبھی بھی بہت بڑے بگاڑ سے دوچار نہیں ہوا۔ اس کا سبب حکمرانوں کا کردار یا ان کی پالیسیاں نہیں تھی٬ بلکہ اس کا سبب ان بوریہ نشینوں کا پاکیزہ کردار٬ ان کی خدمت انسانیت اور لوگوں کے نفس کی اصلاح میں توانائیاں صرف کرنا تھا۔  ہمارے معاشرے کے بگاڑ میں تیزی فرنگی اقوام کے غلبہ سے شروع ہوتی ہے کہ انہوں نے ہمارے نظام تعلیم اور ہمارے نظام قانون وغیرہ کو بدل کر انہیں اپنے نظریات سے ہمہ آہنگ کیا٬ جس سے عقل وعقلیت کے فتنہ نے جنم لیا اور معاشرے میں سرے سے اہل اللہ کے تزکیہ وتربیت اور اصلاح کے سلسلے میں ان  کے کردار سے انکار کیا گیا اور یہ روش غالب ہوئی٬ پھر جدید نظریات اور مادی تہذیب کے غلبہ نے یہ حالت پیدا کردی کہ سرے سے فکر ونظر میں ہی تبدیلی پیدا ہوئی٬ پہلے یہ حالت تھی کہ معاشرے کے لاکھوں افراد اصلاح نفس کے سلسلے میں اہل اللہ سے رجوع ہوتے تھے٬ جس سے معاشرہ اخلاقی اور روحانی طور پر مستحکم ہوتا تھا٬ اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ بالعموم سارے جدید طبقات خودسری کا شکار ہو کر٬ اہل اللہ سے بے نیاز ہوگئے ہیں٬ جس سے معاشرے میں دنیا کی دوڑ شروع ہوگئی اور عزت کا معیار دولت قرار پائی ہے۔  مسلم معاشرے کی یہ تبدیلی اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ دھائی تین سو سال پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔  اب جہاں فکری طور پر سیکولر نظریات کا غلبہ ہوا وہاں عملی طور پر اخلاقی اور روحانی بحران بھی پیدا ہوا اور معاشرہ میں نفسیاتی بیماریوں کی وبا پھوٹ پڑی ۔  ان حالات میں اہل اللہ کردار ادا کریں تو کیسے کریں٬ اس لئے کہ جب افراد معاشرہ اصلاح اور تزکیہ کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں اور وہ اہل اللہ کی طرف رجوع ہونے کےلئے ہی تیار نہ ہوں تو معاشرہ کے سدھارے کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔  تحریر:﴿حافظ محمد موسٰی بھٹو ﴾ آواز جاوید یونس (گزارش) تمام گروپوں میں ایک ہی مواد بھیجا جاتا ہے لہذا صرف ایک گروپ میں ہی شمولیت اختیار کریں۔شُکریہ

تحریر نمبر 02

اور پڑہیں

علمی برتری و علمی حجابات اور اس کے نتائج علم کے لئے کاوشیں ناگزیر ہیں٬ دنیاوی علوم و فنون سے قوموں کی مادی ترقی وابستہ ہے تو دینی علوم سے دین کا پورا نظام متعلق ہے٬ لیکن ان دونوں علوم کے حصول کی جدوجہد کے دوران یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ کہیں علم سے علمی برتری اور علمی حجابات پیدا نہ ہوجائیں٬ کہیں یہ علوم تزکیہ نفس اور خودشناسی اور اللہ شناسی کی راہ میں حائل نہ ہوجائیں۔ علمی حجابات اور علمی برتری بتا کر نہیں آتیں٬ بلکہ خودشناسی نہ ہونے کے لازمی نتیجہ کے طور پر یہ حجابات پیدا ہوجاتے ہیں٬ جس سے علم کے فوائد و ثمرات ضایع ہوجاتے ہیں٬ہم اپنے ملک کے مؤثر طبقات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ملک میں غربت و افلاس کی حالت پیدا کرنے اور عام لوگوں کو نانِ شبینہ کا محتاج بنانے میں جو کردار جدید تعلیم یافتہ طبقات نے ادا کیا ہے٬ جس میں حکمران٬ اہل سیاست٬ بیورکریٹ، سرمائیدار٬ بڑے بڑے تاجر٬ بڑے بڑے ڈ اکٹر وغیرہ شامل ہیں٬ غیر تعلیم یافتہ افراد نے تو اس کا ہزارواں حصہ بھی ادا نہیں کیا٬ڈاکو لوٹ مار کرتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ لاکھوں روپے کی لوٹ مار ہوتی ہے٬ لیکن مذکورہ طبقات کی لوٹ مار کروڑوں٬ اربوں روپے کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دولت کا ایک جنون ہےجس میں مذکورہ طبقات مبتلا ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کے سارے فوائد وثمرات برباد ہوگئے اور علم ذاتی مفادات کے حصول اور نفسی حجابات کا ذریعہ بن گیا۔ ایسا اس لئے ہوا کہ علم سے خودشناسی اور اللہ شناسی کی روح نکال دی گئی٬ اس لئے علم خودغرضی٬ مفاد پرستی٬ نفس پرستی اور دولت پرستی کا ذریعہ بن گیا۔ کوئی قانون ایسا نہیں٬ جو خودشناسی اور اللہ شناسی کا بدل بن سکے٬ اس لئے ضروری ہے کہ علوم کے حصول کے وقت خودشناسی اور اللہ شناسی یعنی معرفت نفس اور معرفت رب کے کچھ اجزاء بھی منتقل کرنے کی کوشش ہو اور اس کا خصوصی اہتمام بھی ہو ﴿تحریر:حافظ محمد موسٰی بھٹو ﴾ آواز :جاوید یونس